Posts

Showing posts from September, 2016

ﻗﺎﺗﻞ ﮐﻮن Qatil Kon

ﻗﺎﺗﻞ ﮐﻮن Qatil Kon ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺑﮩﺖ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﻧﮕﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡﻋﺎﻣﯿﻞ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏﻟﮍﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﺘﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﮭﺘﯿﺠﮯ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﮐﮯ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﻮﮞ؟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺘﻞ ﮐﯽ ﺗﮩﻤﺖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺘﻮﻝ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺅﮞ ۔ﺍﺱ ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭘﺨﺘﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ۔ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﺩﻭﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮭﮕﮍﻭﮞ ﺑﮑﮭﯿﮍﻭﮞ ﺳﮯ ﺗﻨﮓ ﺁ ﮐﺮ ﯾﮑﺴﻮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯﻟﮕﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﮭﺘﯿﺠﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ ﻻﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﮯ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﭘﮭﺮ ﺩﮨﺎﺋﯽ ﻣﭽﺎ ﺩﯼ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﭽﺎ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻻ۔ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺍﻥ ﻗﻠﻌﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﮩﻤﺖ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺩﯾﺖ ﮐﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻗﺘﻞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺍﮌ ﮔﯿﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻞ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻋ

عید کا دن ( Eid ka Din )

عید کا دن ( Eid ka Din ) آج عید کا دن تھا، میں نے اپنی ڈائری کھولی، ان لوگوں کو یاد کیا جن کےساتھ میری زندگی کی کئی عیدیں گزری تھیں۔ آج مجھے وہ ماسٹر صاحب بہت یاد آئے، جنہوں نے پہلی مرتبہ ہمیں بتایا تھا کہ عید کا مطلب واپس لوٹ کر آنا ہے، یہ دن چونکہ ہر سال لوٹ کر آتا ہے اور اس دن ہم ایک پیغمبر کی قربانی کی قبولیت کی خوشی بناتے ہیں، اس لئےاسے عید کہتے ہیں۔ کئی سالوں بعد ایک مرتبہ عید کا دن ہی تھا کہ  جب میں اپنے شہر کے قبرستان  میں فاتحہ پڑھنے کے لئے گیا تو قبرستان کے گیٹ کے ساتھ ہی ایک کے کتبے پر ان کا نام لکھا تھا، یعنی میں نے اپنی باقی زندگی میں پلٹ کر کبھی اپنے اس استاد کی کوئی خبر نہلی تھی کہ وہ کس حال میں ہے!!!آج مجھے اپنا وہ دکاندار دوست بھی بہت یاد آیا، جو میرا محسن بھی تھا، جو میرے تعلیمی اخراجات پورے کرتا تھا، جب میں یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اسے جب بھی شہر میں میری واپسی کی خبر ملتی تھی، وہ میرے پہنچنے تک کھانا نہیں کھاتا تھا،کئی مرتبہ اس نے آدھی رات تک بھی کھانے پر میرا انتظار کیا، جب میں پہنچتا تو تب میرے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا کرتا۔ ہم نے زندگی کی کئی عیدیں اکٹھ

فل اسٹاپ ( Full Stop)

فل اسٹاپ ( Full Stop) ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﺎ۔ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻓﻘﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﻞ ﺍﺳﭩﺎﭖ ‏( ۔ ‏) ﮐﺎ ﻏﻠﻂ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺮﻑ ﮔﺮﺍﺋﻤﺮ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ۔ "ﻋﺮﺽ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺧﻮﺵ ﮔﻮﺍﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﮐﯽ۔ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻧﻮﺭﮐﯽ۔ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﮑﺮﯼ ﮐﯽ۔ ﭨﺎﻧﮓ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯽ ﮨﮯﭘﮭﻮﭘﮭﻮ ﮐﯽ۔ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﯽﻭﺍﺭﺩﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﯾﻮﺭ ﭘﮑﮍﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ۔ ﻧﺎﻧﯽ ﻻﮨﻮﺭ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﺑﺘﺎﺋﮯ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﭼﻠﮯﮔﺌﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺩﮮ ﮐﺮ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮍﮎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻣﯿﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ۔ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﻧﭩﯽ ﺯﮨﺮﮦ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻤﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ۔ نیا ﻓﺮﺍﮎ ﺳﻠﻮﺍ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﺍﺑﻮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ۔ ﭘﺸﺎﻭﺭﯼ ﭼﭙﻞ ﻻﺋﯽ ﮨﻮﮞ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻧﻨﺪ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ۔ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻻ ﺳﮑﯽ ﮐﺒﻮﺗﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﮓ ﭘﻨﺠﺮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﺎ۔ ﺭﻭﺯ ﺳﺮ ﺩﺑﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺩﻭﺩﮪ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ۔ ﺑﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ۔ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﮐﺎ۔ ﺭﺷﺘﮧ ﻃﮯ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﯽ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ۔ ﺣﺎﺩﺛﮯ ۔ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺧﺎﻟﻮ ﮐﺎ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﺮﯼ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ

ہمارے عیب اور ہم ( Hamare Aib or Hum )

ہمارے عیب اور ہم ( Hamare Aib or Hum ) ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﻰ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺳُﻨﺎﺭ ﺟﻮ ﮐﮯ ﺑﻤﺒﺌﯽ ﮐﺎ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ ﻻﮨﻮﺭ ﺁﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺎﻓﻰ ﻣﻮﺗﻰ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﻩ ﻣﻮﺗﻰ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﺗﻰ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻣﻮﺗﻰ ﺷﺐ ﺍﻓﺮﻭﺯ ﮨﮯ ‏( ﯾﻌﻨﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﭼﻤﮑﺘﺎ ﮨﮯ ‏) ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﻤﯿﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﭨﮫ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﺭ ﺟﻮ ﺍﺳﻰ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﻨﺎﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﯿﮟ ﺳُﻨﺎﺭ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺑﻤﺒﺌﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﭼﻠﯿﮟ ﻣﻞ ﮐﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﻰ ﺳُﻨﺎﺭ ﺑﮭﻰ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻣﻮﺗﻰ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺁﺅ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﻰ ﻭﺍﺳﮑﭧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺟﻮ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﮩﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍُﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﭘﮯ ﻟﭩﮑﺎ ﺩﯼ . ﺳُﻨﺎﺭ ﻧﮯ ﻭﻩ ﻣﻮﺗﻰ ﺍﭘﻨﻰ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺮ ﺑﭽﺎ ﮐﮯ ﻭﻩ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﻣﻮﺗﻰ ﺍﺱ ﮐﻰ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮯ ﻓﮑﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﺑﮭﻰ ﭼﻮﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍُﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻰ ﺟﯿﺐ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﺐ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﻰ ﻣﻮﺗﻰ ﻧﮧ ﻣﻼ ﺍﺧﺮ ﻭﻩ

ہار اور جیت کا مزہ ( Haar Aur Jeet kaa Mazaa )

ہار اور جیت کا مزہ ( Haar Aur Jeet kaa Mazaa ) پوتے کو ناکامی کے بعد اداس دیکھ کر ایک دادا نے اسے اپنی زندگی کا ایک قصہ سنایا " میں جب تمہاری عمر میں تھا تو ہمارے گاؤں میں ایک میلہ لگتا تھا، جس میں دوڑ کے مقابلے ہوتے۔ لوگ دور دور سے آتے اور اس مقابلے میں حصہ لیتے تھے جیتنے والے کو انعام بھی ملتا۔ مجھے بھی بہت شوق تھا کہ میں دوڑ میں حصہ لوں۔ میرے شوق کو دیکھ کر ابّا جی مجھے ایک بزرگ کے پاس لے کے گئے جو اپنے دور کے نامی گرامی کھلاڑی رہے تھے، دوڑ کے کئی مقابلے انھوں نے جیتے تھے۔ میری عمر کے کئی اور لڑکے ان کے پاس گٗر سیکھنے آتے تھے۔ میں کافی مہینوں تک ان سے سیکھتا رہا۔ انھوں نے مجھے کافی گر سیکھائے۔ وہ  میرے ساتھ کے باقی لڑکوں سے اکثر میرا مقابلہ کراتے اور ہر بار میں جیت جاتا۔ مجھے اس بات کا بڑا فخر ہوتا کہ میرے مقابلے کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔ جیسے ہی میلے کے دن قریب آئے، ہمارے استاد نے وہ لڑکے علحیدہ کیے جو اس دفعہ دوڑ میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ میں پر امید تھا کہ میرا نام بھی ان لڑکوں میں شامل ہے۔ لیکن مجھے حیرت کے ساتھ افسوس ہوا، استاد نے میرا نام لیا ہی نہیں۔ میں دلبرداشتہ ہو کے

شکر (Shukar)

شکر (Shukar) ایک بندہ مسجد میں داخل ہوا اور دعا مانگنے لگا کہ اے میرے رب بہت غریب ہوں پاؤں میں پہننے کو جوتا نہیں ہے مالک کہیں سے ایک جوتے کى روزى کا بندوبست کر دے مالک ایک جوتا دلا دے لوگ دیکھتے ہیں تو شرم آتی ہے کہ اس کے پاس جوتا بھى نہیں... خیر مسجد سے دعا مانگ کر باہر نکلا تو چند قدم ہى چلا تھا کہ دیکھا ایک شخص زمین کے بل چلتا آ رہا ہے اور پاؤں نہ ھونے کى وجہ سے اتنى مشکل سے زمین پر ٹانگیں رگڑ کر چل رہا تھا کہ ٹانگوں سے خون نکل نکل کر زمین پر نشان چھوڑ رہا تھا.... جب اس نے یہ کیفیت دیکھى تو فوراً واپس موڑا اور مسجد میں جا کر اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑا کہ اے میرے رب تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے جوتا نہیں دیا تو کیا چلنے کو پاؤں تو دیے ہیں... اُس مالک کى ذات کا ہر وقت شکر ادا کیا کریں... کسى چھوٹی سواری پر ھو تو بڑی سواری کى خواہش سے پہلے ساتھ پیدل چلنے والے کو دیکھ لو اور اگر پیدل چل رہے ھو تو سواری کى خواہش سے پہلے اس کے بارے میں سوچو جو پیدل بھى نہیں چل سکتا...