عید کا دن ( Eid ka Din )

عید کا دن
( Eid ka Din )

آج عید کا دن تھا، میں نے اپنی ڈائری کھولی، ان لوگوں کو یاد کیا جن کےساتھ میری زندگی کی کئی عیدیں گزری تھیں۔ آج مجھے وہ ماسٹر صاحب بہت یاد آئے، جنہوں نے پہلی مرتبہ ہمیں بتایا تھا کہ عید کا مطلب واپس لوٹ کر آنا ہے، یہ دن چونکہ ہر سال لوٹ کر آتا ہے اور اس دن ہم ایک پیغمبر کی قربانی کی قبولیت کی خوشی بناتے ہیں، اس لئےاسے عید کہتے ہیں۔ کئی سالوں بعد ایک مرتبہ عید کا دن ہی تھا کہ  جب میں اپنے شہر کے قبرستان  میں فاتحہ پڑھنے کے لئے گیا تو قبرستان کے گیٹ کے ساتھ ہی ایک کے کتبے پر ان کا نام لکھا تھا، یعنی میں نے اپنی باقی زندگی میں پلٹ کر کبھی اپنے اس استاد کی کوئی خبر نہلی تھی کہ وہ کس حال میں ہے!!!آج مجھے اپنا وہ دکاندار دوست بھی بہت یاد آیا، جو میرا محسن بھی تھا، جو میرے تعلیمی اخراجات پورے کرتا تھا، جب میں یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اسے جب بھی شہر میں میری واپسی کی خبر ملتی تھی، وہ میرے پہنچنے تک کھانا نہیں کھاتا تھا،کئی مرتبہ اس نے آدھی رات تک بھی کھانے پر میرا انتظار کیا، جب میں پہنچتا تو تب میرے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا کرتا۔ ہم نے زندگی کی کئی عیدیں اکٹھی گزاری تھیں، اس نے مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ بستہ بھی خرید کر دیا تھا، پھر تغییر زمانہ دیکھئے کہ میں مصروف ہوتا گیا اور وہ تنہا۔ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی، بڑھاپے میں اس کا کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا اور اسے بیماریوں نے گھیر لیا، کچھ سال بسترِ بیماری پر رہا، آخری دنوں میں بالکل کنگال ہوگیا، لیکن غیرت اورجوانمردی کا وہ پیکر کسی کا احسان لئے بغیر ہی بھوک، پیاس اور بیماری کا دور کاٹ کر اس دار فانی سے چلا گیا۔ اچانک ایک دن مجھے کسی نے میسج کیا کہ فلاں صاحب فوت ہوگئے، تفصیلات کا پتہ چلا تو مجھے احساس ہوا کہ کاش میں واپس پلٹ کر اس کی خبر لیتا، اس کے برےدنوں میں اس کا عصا اور سہارا بنتا۔ لیکن اب صرف پچھتا ہی سکتا ہوں، کچھ کر نہیں سکتا۔مجھے اپنا وہ دوست بھی یاد آیا جو ڈگری کالج میں میرے ساتھ پڑھتا تھا، ہم ہمیشہ اکٹھے ایک ہی میز پربیٹھتے، بحث مباحثہ کرتے اور امتحانات کی تیاری کیا کرتے تھے، گذشتہ سال جب میں  نے اچانک اپنے  ایک پرانے کلاس فیلو سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے فوت ہوئے دو سال ہوگئے ہیں۔ مجھے اس کی فوتگی کی خبر سن کر ایک دھچکا سا لگا کہ پتہ نہیں وہ کس حال میں اس دنیا سے گیا ہوگا، کاش میں اس کی زندگی میں پلٹ کر ایک مرتبہ اس سے حال احوال پوچھ لیتا۔دوستو! مجھے وہ ڈی سی صاحب بھی یاد آئے، جن سے طالب علمی کے زمانے میں میرا بہت یارانہ تھا، وہ بہت خوش اخلاق اور ملنسار انسان  تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد کئی سال بسترِ بیماری پر رہے، گذشتہ روز ان کی وفات کی خبر ملی تو میں چونک گیا،اچھا وہ بھی۔۔۔آج مجھے وہ مزدور بھی یاد آیا، جو پیدائشی طور پر گونگا تھا، اس کےآٹھ بچے تھے، ساری زندگی اس نےکبھی کسی سے بھیک نہیں مانگی،ہر طرح کی مزدوری کیا کرتا تھا، اس نے اپنے بچوں کو فقط رزق حلال کما کر کھلایا تھا، گذشتہ سال ساٹھ سال کی عمر میں مزدوری کے دوران ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا، جب وہ فوت ہوگیا تو مجھے خیال آیا کہ اس بے درد سماج میں وہ کیسے اپنے بچوں کی کفالت کرتا رہا ہوگا، میں اسے اپنےبچپن سے جانتا تھا لیکن کبھی عید کے دن بھی اس سے احوال پرسی نہیں کی تھی۔۔۔قارئین کرام! عید کا دن ہمیں ہماری فطرت کی طرف پلٹانے کا دن ہے، انسانی اقدار کو اجاگر کرنے کا دن ہے، ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو ہماری توجہ کے مستحق ہیں، جنہیں ہمارے لوٹنے کا انتظار ہے، جو اپنی غیرت کے باعث کسی سے  گلہ تک نہیں کرتے۔۔۔ ہمارے اردگرد پوری دنیا میں درد کی ایک زنجیر  پھیلی ہوئی ہے، بہت بڑی تعداد میں مفلس بچے، بیوائیں، یتیم اور نادار دروازوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔۔۔ آیئےہم سب اپنے ان عزیزوں، پڑوسیوں اور رشتے داروں کی طرف لوٹنے کا عہد کریں، جنہیں ہم بھول چکے ہیں اور انمیں سے بعض کا حال پوچھنا بھی ہم ضروری نہیں سمجھتے۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog