(ہار جیت) Haar Jeet
(ہار جیت) Haar Jeet
پوتے کو ناکامی کے بعد اداس دیکھ کر ایک دادا نے اسے اپنی زندگی کا ایک قصہ سنایا
" میں جب تمہاری عمر میں تھا تو ہمارے گاؤں میں ایک میلہ لگتا تھا، جس میں دوڑ کے مقابلے ہوتے۔ لوگ دور دور سے آتے اور اس مقابلے میں حصہ لیتے تھے جیتنے والے کو انعام بھی ملتا۔ مجھے بھی بہت شوق تھا کہ میں دوڑ میں حصہ لوں۔ میرے شوق کو دیکھ کر ابّا جی مجھے ایک بزرگ کے پاس لے کے گئے جو اپنے دور کے نامی گرامی کھلاڑی رہے تھے، دوڑ کے کئی مقابلے انھوں نے جیتے تھے۔ میری عمر کے کئی اور لڑکے ان کے پاس گٗر سیکھنے آتے تھے۔ میں کافی مہینوں تک ان سے سیکھتا رہا۔ انھوں نے مجھے کافی گر سیکھائے۔ وہ میرے ساتھ کے باقی لڑکوں سے اکثر میرا مقابلہ کراتے اور ہر بار میں جیت جاتا۔ مجھے اس بات کا بڑا فخر ہوتا کہ میرے مقابلے کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔
جیسے ہی میلے کے دن قریب آئے، ہمارے استاد نے وہ لڑکے علحیدہ کیے جو اس دفعہ دوڑ میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ میں پر امید تھا کہ میرا نام بھی ان لڑکوں میں شامل ہے۔ لیکن مجھے حیرت کے ساتھ افسوس ہوا، استاد نے میرا نام لیا ہی نہیں۔ میں دلبرداشتہ ہو کے وہاں سے اپنے گھر چلا گیا۔ میرا مایوس چہرہ دیکھ کر میرے ابٌا جی نے مجھے دوڑ میں حصہ لینے کے لیے کہا۔ اپنے استاد کے فیصلے کو پس پشت ڈالے میں چلا گیا اور دوڑ میں حصہ لیا۔
قسمت کو منظور نہیں تھا یا پھر کوئی اور وجہ تھی میں دوڑ میں ہار گیا، اور میرے مقابلے میں وہ لڑکا جیت گیا جسے میں نے کئی بار ہرایا تھا۔ اس دن میں نے دکھی ہو کے اپنے اس شوق کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گلہ گھونٹ دیا۔ کچھ عرصہ گزرا اور میری ملاقات اپنے استاد سے ہوئی۔ میں نے ان سے وجہ پوچھی کہ میری ساری صلاحیتوں کے با وجود آپ نے مجھے دوڑ میں حصہ لینے سے منع کیوں کیا تھا؟ انھوں نے مجھے جواب دیا کہ وجہ یہ تھی، میں کبھی ہارا نہیں تھا، اس لیے مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ ہار ہوتی کیا چیز ہے۔ اور ہار کی کڑواہٹ کا احساس جب تک نہ ہو تب تک وہ جیت، جیت ہی نہیں ہوتی۔ اور جیت کے عادی جب ایک بار ہار کا مزہ چکھتے ہیں تو پھر ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہوا تھا"
سچ ہی تو ہے، زبان تبھی میٹھا محسوس کر سکتی ہے جب ایک بار وہ کڑوا چکھ لے۔ جیسے اجالے کی پہچان اندھیرے سے ہے اور گرمی کی پہچان سردی سے ہے بالکل ویسے ہی جیت بھی ہار سے ہی پہچانی جاتی ہے
" میں جب تمہاری عمر میں تھا تو ہمارے گاؤں میں ایک میلہ لگتا تھا، جس میں دوڑ کے مقابلے ہوتے۔ لوگ دور دور سے آتے اور اس مقابلے میں حصہ لیتے تھے جیتنے والے کو انعام بھی ملتا۔ مجھے بھی بہت شوق تھا کہ میں دوڑ میں حصہ لوں۔ میرے شوق کو دیکھ کر ابّا جی مجھے ایک بزرگ کے پاس لے کے گئے جو اپنے دور کے نامی گرامی کھلاڑی رہے تھے، دوڑ کے کئی مقابلے انھوں نے جیتے تھے۔ میری عمر کے کئی اور لڑکے ان کے پاس گٗر سیکھنے آتے تھے۔ میں کافی مہینوں تک ان سے سیکھتا رہا۔ انھوں نے مجھے کافی گر سیکھائے۔ وہ میرے ساتھ کے باقی لڑکوں سے اکثر میرا مقابلہ کراتے اور ہر بار میں جیت جاتا۔ مجھے اس بات کا بڑا فخر ہوتا کہ میرے مقابلے کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔
جیسے ہی میلے کے دن قریب آئے، ہمارے استاد نے وہ لڑکے علحیدہ کیے جو اس دفعہ دوڑ میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ میں پر امید تھا کہ میرا نام بھی ان لڑکوں میں شامل ہے۔ لیکن مجھے حیرت کے ساتھ افسوس ہوا، استاد نے میرا نام لیا ہی نہیں۔ میں دلبرداشتہ ہو کے وہاں سے اپنے گھر چلا گیا۔ میرا مایوس چہرہ دیکھ کر میرے ابٌا جی نے مجھے دوڑ میں حصہ لینے کے لیے کہا۔ اپنے استاد کے فیصلے کو پس پشت ڈالے میں چلا گیا اور دوڑ میں حصہ لیا۔
قسمت کو منظور نہیں تھا یا پھر کوئی اور وجہ تھی میں دوڑ میں ہار گیا، اور میرے مقابلے میں وہ لڑکا جیت گیا جسے میں نے کئی بار ہرایا تھا۔ اس دن میں نے دکھی ہو کے اپنے اس شوق کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گلہ گھونٹ دیا۔ کچھ عرصہ گزرا اور میری ملاقات اپنے استاد سے ہوئی۔ میں نے ان سے وجہ پوچھی کہ میری ساری صلاحیتوں کے با وجود آپ نے مجھے دوڑ میں حصہ لینے سے منع کیوں کیا تھا؟ انھوں نے مجھے جواب دیا کہ وجہ یہ تھی، میں کبھی ہارا نہیں تھا، اس لیے مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ ہار ہوتی کیا چیز ہے۔ اور ہار کی کڑواہٹ کا احساس جب تک نہ ہو تب تک وہ جیت، جیت ہی نہیں ہوتی۔ اور جیت کے عادی جب ایک بار ہار کا مزہ چکھتے ہیں تو پھر ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہوا تھا"
سچ ہی تو ہے، زبان تبھی میٹھا محسوس کر سکتی ہے جب ایک بار وہ کڑوا چکھ لے۔ جیسے اجالے کی پہچان اندھیرے سے ہے اور گرمی کی پہچان سردی سے ہے بالکل ویسے ہی جیت بھی ہار سے ہی پہچانی جاتی ہے
Comments
Post a Comment