ہم اور مرحوم Hum aur Marhoom

ہم اور مرحوم Hum aur Marhoom

لوگوں کے سر جھکے ہوئے اور چہروں پر مصنوعی دکھ کے ماسک چڑھے تھے۔ یہ سب ایک جنازے کے پیچھے قبرستان جا رہے تھے۔ ایک نے کہا ’’مرحوم بہت ہی اچھا آدمی تھا، ہنس مکھ اور لوگوں سے پیار کرنے والا…‘‘
دوسرا بولا ’’بھائی! زندگی پر تو کوئی اعتبار ہی نہیں… ابھی عمر ہی کیا تھی اس بچارے کی…!‘‘
تیسرے نے منہ کھولا ’’بس! موت بتا کر نہیں آتی… اس کے جانے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔‘‘
چوتھے نے کہا ’’عزرائیل کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں بھائی! ابھی کل کی بات ہے۔ وہ میری دکان پر سودا سلف لینے آیا تھا اور آج بچارہ چل بسا۔‘‘
پانچواں بولنے لگا ’موت تو برحق ہے۔ مگر یہ ہمیں یاد ہی نہیں رہتی… اگر یاد ہو تو پھر یہ نفرتیں جنم نہ لے سکیں۔‘‘
چھٹے نے چشمہ صاف کرتے ہوئے بات کی ’’زندگی کا کیا اعتباربھائی! ایک دن ہمیں بھی جانا ہے۔ کون یہاں ہمیشہ رہے گا؟‘‘
مرحوم کے بارے میں سب لوگوں کی اجتماعی رائے تھی: ’’بہت اچھا اور نیک آدمی تھا۔‘‘
لیکن اسی وقت مسٹر ’’م‘‘ سوچ رہا تھا: ’’آج تو میری چھٹی ہی ضائع ہو گئی… نہ ہی لیتا تو اچھا تھا، غلطی ہو گئی، آج اگر یہ نہ مرتا تو میں دس گیارہ بجے اٹھتا… ٹھیکیدار کے ہاں بھی جانا تھا۔ ان سے اپنا حصہ وصول کرنا تھا۔ بیڑا غرق کر دیا اس بدبخت نے… نالائق کہیں کا!‘‘
مسٹر ’’ک‘‘ نے سوچا ’’ایک ہفتے بعد عید ہونے ہونے والی ہے۔ آج اس لیے دفتر سے چھٹی لی تھی کہ بچوں کو عید کی خریداری کرائوں گا۔ لیکن صبح صبح اس کی موت کی منحوس خبر سن کر سارا موڈ تباہ ہو گیا… اس مردود کو آج ہی مرنا تھا۔ بیوی کا رشتہ دار تھا،اس لیے آنا لازمی ٹھہرا۔ ورنہ میں تواسے گھاس بھی نہ ڈالتا ۔‘‘
مسٹر ’’ش‘‘ سوچ رہا تھا ’’آج شناختی کارڈ جمع کرانا تھا۔ سارا دن تو یہیں ضائع ہو جائے گا۔ دفتر بند ہونے سے پہلے شاید فارغ نہ ہو سکوں۔ مشکل سے جا کر معاملہ طے ہوا تھا پیسوں پر۔ جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ بس، کوئی پوچھنے والا جو نہیں۔ میں نہ ڈاکو ہوں اور نہ ہی کوئی بدمعاش… سارا کھیل پیسوں کا ہے۔ آج تو بس کام ہونے ہی والا تھا لیکن یہ کمینہ چل بسا۔ سارا کام چوپٹ ہو گیا۔‘‘
مسٹر ’’ن‘‘ نے سوچا ’’آج ’’ط‘‘ کو میرے پاس آنا تھا۔ دوستوں سے کہلوا کر اسے تیس ہزار پر راضی کیا تھا۔ کیا کریں، اگر یہاں نہ آتے تو لوگ شرمندہ کرتے۔‘‘
مسٹر ’’ج‘‘ بھی اپنی سوچوں میں گم تھا: ’’آج تو ٹی وی بھی بنوانا تھا۔ لیکن اب ممکن ہی نہیں۔ میرے پسندیدہ ڈرامے کی آج آخری قسط چلنی تھی۔ ایک زبردست فلم بھی آنا تھی۔ سارا مزا غارت ہو گیا۔ اب توسارا دن قبرستان میں ضائع ہو گا۔‘‘
مسٹر ’’ق‘‘ سوچنے لگا ’’کل بھی دکان بند تھی اور آج تو بند ہی رہے گی۔ دو تین ہزار روپے کا تو نقصان ہو ہی جائے گا۔ اس بدبخت کے لیے عزرائیل کو بھی آج ہی آنا تھا۔‘‘
مسٹر ’’غ‘‘ سوچتا ہے ’’آج کلب میں سول جج کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی پارٹی میں جانا تھا۔ سارا پروگرام تباہ ہو گیا۔ کل مرتا تو کون سا آسمان پھٹ جاتا۔ اب تو تین دن برباد ہو گئے۔‘‘
مسٹر ’’خ‘‘ نے سوچا ’’اب تو بیٹے کی شادی کی تاریخ بھی بدلنی پڑے گی اور تو کوئی چارہ ہی نہیں… اب تو دو ڈھائی ماہ تک اس معاملے پر سوچنا ہی فضول ہے… بیٹے کی شادی کے بعد مرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا… سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔‘‘
سب لوگوں کے سر جھکے ہوئے تھے۔ سوچوں میں اکثر لوگوں کی اجتماعی رائے یہ تھی: ’’مرحوم بڑا ذلیل اور ناہنجار شخص تھا۔

Comments

Popular posts from this blog