ذہین بچہ اور بادشاہ Zaheen Bacha or Badshah

ذہین بچہ اور بادشاہ Zaheen Bacha or Badshah

ایک بادشاہ محاذ جنگ پر جا رہا تھا، دور دراز کے کسی قصبے میں اس کا سامنا دس بارہ سالہ بچے سے ہوا۔ معصوم صورت بچے سے بادشاہ نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے۔؟

بچہ: فتاح (راستے کھولنے والا)
بادشاہ: کیا پڑھتے ہو۔؟

بچہ: قرآن کی آیت "إنا فتحنا لك فتحا مبينا" تک پڑھ چکا ہوں۔

بادشاہ بہت خوش ہوا کہ بچے کا نام اور قرآن کی آیت دونوں تفائل خیر کے لئے زبردست اشارہ ہیں۔

بادشاہ اپنے لشکر کے ہمراہ محاذ پر پہنچا اللہ نے اسے فتح و کامرانی نصیب کی تو واپسی کے سفر میں اسی قصبے سے گزرتے وقت اس نے سوچا کہ خیر و برکت کا اشارہ ثابت ہونے والے اس بچے سے ملاقات کر لوں۔
قصبے میں داخل ہو کر وہ مسجد گیا دیکھا کہ مولوی صاحب بچوں کو قرآن پڑھا رہے ہیں۔ بادشاہ نے حلیہ بتا کر بچے کو بلانے کا کہا تو مولوی صاحب پکارے "خالد ادھر آؤ" بادشاہ چونک اٹھا کہ بچے کا نام تو اس نے فتاح بتایا تھا لیکن یہ سوچ کر خاموش رہا کہ ضرور مولوی صاحب غلط سمجھے ہیں اور کسی دوسرے بچے کو بلا بیٹھے ہیں لیکن جب بچہ سامنے آیا تو وہی تھا جس سے بادشاہ کی ملاقات راستے میں ہوئی تھی۔ بادشاہ نے سوچا کہ شاید وہ بچے کا نام ٹھیک سے یاد نہیں رکھ پایا اس لئے تسلی کی خاطر پوچھا کہ سبق میں آپ قرآن کی کونسی آیت تک پہنچ چکے۔؟
بچہ: عبس و تولي..

بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ فلاں دن جب آپ راستے میں مجھے ملے تھے تو اپنا نام اور سبق غلط کیوں بتایا تھا۔؟
بچہ: چونکہ آپ محاذ جنگ پر جا رہے تھے تو میں نے سوچا کہ آپ کے سامنے فتح و نصرت کے کلمات ادا کروں تاکہ آپ کا حوصلہ بلند ہو۔

بادشاہ اس کی ذہانت اور معاملہ فہمی سے بہت متاثر ہوا اور وزیر سے کہا اس بچے کو ایک دینار دے دو۔
لیکن بچے نے ایک دینار لینے سے انکار کر دیا۔

وزیر نے پوچھا آپ بادشاہ کا تحفہ لینے سے انکار کر رہے ہیں۔؟

بچہ: نہیں دراصل میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ جب پوچھا جائے گا کہ یہ دینار کہاں سے لایا ہے اور میں کہوں گا کہ بادشاہ نے دیا ہے تو کوئی یقین نہیں کرے گا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جو بادشاہ ہوتا ہے وہ ایک دینار نہیں دیا کرتا۔۔
بادشاہ نے بچے کی ذہانت سے متاثر ہو کر وزیر سے کہا اس بچے کو دیناروں کی پوری تھیلی دے دو۔۔
قصبے سے واپسی پر بادشاہ کے ہم نشینوں نے ہٹو بچو کی صدائیں بلند کیں تاکہ بادشاہ کی سواری آسانی سے گزر پائے۔ سب ایک طرف ہو گئے لیکن ایک ادھیڑ عمر شخص بیچ راستے میں جما کھڑا کہنے لگا میں کسی بادشاہ کو نہیں جانتا، چلو ہٹو اور مجھے اپنا کام کرنے دو، بڑے آئے بادشاہ کے چمچے۔۔

بادشاہ نے جب یہ سنا تو حکم دیا کہ اسے گرفتار کیا جائے تاکہ شہر جا کر وہ دیکھ سکے کہ بادشاہ کی عزت و توقیر کیا ہوتی ہے۔ اتنے میں ہجوم کو چیرتے وہی بچہ سامنے آیا اور سپاہیوں کے سامنے دیناروں سے بھری تھیلی پھینک کر کہا یہ سب لے لو مگر میرے والد کو چھوڑ دو۔ بادشاہ نے یہ منظر دیکھا تو کہا "نعم الولد و بئس الأب" (کیا ہی اچھا بچہ ہے اور اتنا ہی برا اس کا والد) بچے نے فورا کہا نہیں بلکہ یوں کہوں کہ "نعم الأب و بئس الجد" (کیا ہی اچھا والد ہے اور اتنا ہی برا اس بچے کا داد) کیونکہ اگر والد برا ہوتا تو میری اتنی اچھی تربیت نہ کرتا اور اگر دادا اچھا ہوتا تو اپنے بچے کی بہترین تربیت کرتا۔۔

یہ سن کر بادشاہ نے بچے اور اس کے والد کا راستہ چھوڑنے کا حکم دیا اور حیرت و استعجاب کی حالت میں اپنی راہ چل پڑا۔۔۔۔




Comments

Popular posts from this blog